احباب اردو کلب تسلیمات،
مرحوم مصطفیٰ قدوائی اور راشد صدیقی صاحبان ان حضرات میں سے ہیں جنھوں نے جدّہ میں ادبی محفلوں کا سلسلہ شروع کیا . شعراء حضرات جو کہ حج یا عمرے کی غرض سے تشریف لاتے انہیں کے اعزاز میں پر تکلّف محفلیں منعقد کی جاتیں. مقامی شعراء بھی اپنا کلام سناتے. مقامی شعراء میں نعیم حامد صاحب، جو کہ اب مدینہ منوورہ میں مقیم ہیں،سجاد بابر اور مرحوم ظفر مہندی صاحبان کا کلام بڑا معیارے ہوا کرتا تھا.انھیں محفلوں میں ہملوگوں نے اکثر و بیشتر طارق غازی صاحب کے والد محترم سے شرف ملاقات حاصل کی. دھیرے دھیرے یہ ذوق یہ شوق نو واردوں میں بھی پیدا ہونے لگا اور ان محفلوں کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی رہا. نئی نئی انجمنیں بن گییں.ایسی سنجیدہ اور پر تکلف ادبی نشستیں منعقد ہونے لگیں کہ جن کا تصور فی زمانہ دلّی ، حیدرآباد یا لکھنو میں بھی نہیں کیا جا سکتا جو کہ آج بھی اردو زبان کے مراکز سمجھے جاتے ہیں .طرحی نشستوں میں بہترین کلام سننے کو ملتا.اس طرح بتجریج ادبی محفلوں کا دائرہ بڑھتے بڑھتے تقریبن سعودی عربیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر تک پھیل گیا . ہند و پاک کے نامور شعرا کی آمد و رفت شروع ہو گیئ کچھ حضرات ایسے تھے جنکا قیام کافی عرصے رہتا، جیسے کہ محترم کلیم عاجز صاحب.جن کے اشعار آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں.
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
-------------
یہ پکار سارے چمن میں تھی' وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
میرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اسکی خبر ہوئی
------------
دن ایک ستم' ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
-----------
یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آو اس وقت کہ جس وقت پکارے جاو
کلیم عاجز صاحب کا پورا خاندان ١٩٤٦/٤٧ کے اندوہ ناک فسادات میں شہید کر دیا گیا. اپنے گاؤں سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے .جب لوٹے تو پورا کے پورا گاؤں مقتل بنا ہوا تھا.
یہ تمام واقعات کلیم عاجز صاحب نے اپنی کتاب "وہ جو شاعری کا سبب ہوا " میں تحریر کئے ہیں . ا س جانکاہ حادثے کی وجہ سے برسہا برس خاموش رہے. اور پھر جب گویا ہوئے تو میر کی زبان، میر کا لہجہ اور میر کا درد ایک اک الفاظ سے ٹپکنے لگا
احمد عرفان
جناب احمد عرفان صاحب آپ نے کلیم عاجز صاحب کا کلام لکھ کر ہم پر احسان کیا ہے ۔ کیا اسلوب بیان ہے کہ بے ساختہ زبان سے واہ واہ نکل جاتی ہے ۔۔ان کے خاندان کے ساتھ جو اندوہناک واقعہ ہوا وہ انتہائ افسوسناک ہے یقینا ان کے کلام میں اس
کا عکس نظر آتا ہے
قاضی زہیر صاحب تسلیمات ،
شکریہ ، امرجینسی کا دور دورہ ہے .دلّی کے لال قلعہ میں جشن آزادی کی تقریبات کے سلسلہ میں محفل مشاعرہ کی صدارت مسز اندرا گاندھی کر رہی ہیں .کلیم عاجز صاحب مائک پر تشریف لاتے ہیں اور مسز گاندھی کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی غزل کے یہ اشعار سنا رہے ہیں
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
منتظمین مشاعرہ اور تمام سرکاری اہل کاران کے پسینے چھوٹ رہے ہیں ،کانا پھوسی چل رہی ہے کہ کلیم عاجز صاحب کو کس طرح روکا جاے. مسز گاندھی کے چہرے کےتاثرات کو بغور سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے. بہرکیف جب رخصت ہونے لگے تو صاحب صدر نے ایک غزل کی فرمایش اور کی
منتظمین کے حواس درست ہوئے .دوسری غزل پہلی سے کہیں زیادہ تیر بحدف نکلی،
" یہ شہ سوار وقت ہیں اتنا نشہ میں چور
گر جایںگے اگر یہ اتارے نہ جایں گے
مسز گاندھی کلیم عاجز صاحب کے ایک اک شعر کو بغور سنتی رہیں اور ایک سنجیدہ مسکراہٹ چہرے پر آتی جاتی رہی . اسی کے کچھ عرصۂ بعد حکومت ہند کی جانب سے کلیم عاجز صاحب کو پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا گیا .
الحمدللہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ کلیم عاجزصاحب میرے غریب خانہ پر بھی قیام کرتے تھے .نہایت متقی پرہزگار، عبادت گزار اور سادہ لوح. یہی وہ لوگ ہیں جو فی زمانہ تبرکات میں سے ہیں .ہمارے اسلاف کی یادگار ہیں.کلیم عاجز صاحب کا مستقل قیام پٹنہ میں رہتا ہے. انکا ایک اور شعر یاد آگیا .
گنتی تو نہیں یاد مگر یاد ہے اتنا
سب زخم بہاروں کے زمانے لگے ہیں
خیر اندیش
احمد عرفان