Sunday, November 15, 2009

غزل

غزل
یہ بیتابی یہ درد حیرت افزا دیکھنے والے
بہت خوش ہیں ہمارے دل کا نقشہ دیکھنے والے
میں کہتا تھا کہ بڑھ جایں گی یہ بیہوشیاں تیری
مگر میرا کہا تونے نہ مانا دیکھنے والے
جو قطرہ ہے لہو کا وہ نکین نام دلبر ہے
ادھرآؤ میرا خوں تمنّا دیکھنے والے
چراغ داغ دل اور اس پہ سو سو رنگ ناکامی
ادھر آَین چراغاں کا تماشا دیکھنے والے
بہت بے درد دیکھے ہیں مگر تم سا نہیں دیکھا
لگا کر آگ جلنے کا تماشا دیکھنے والے
کہاں پھر یہ غم فرقت کہاں پھر درد مجبوری
مجھے بھی دیکھ جا او جاتی دنیا دیکھنے والے
نہ اب مجھ سا زمانے میں گراں خاطر شکستہ دل
نہ تم سا درد دل کا یوں تماشا دیکھنے والے
میری گردن پہ خنجر رکھ کے قاتل نے کہا احمد
کہاں ہیں روز بسمل کہ تماشا دیکھنے والے
احمد عرفان

Thursday, November 12, 2009

سود و زیاں

سود و زیاں

آج یوں رات گئے درد نے کروٹ بَدلی

بعد مدّت کے مسیحائی کی صورت نکلی

ایک اک زخم کُہَن ساغر رنگیں بن کر

ہر رگ جاں سے چھلکتا ہے گلابی کی طرح

دشت تنہائی میں امید کی کرنیں پھوٹیں

ہجر کی رات کٹی وصل کا سورج نکلا

پھر تری کاکل پیچاں سے الجھنے کے لئے

دل وحشی نے بھی کچھ حد سے گزرنا چاہا

تری پیشانی و رخسار و بدن کی خوشبو

بس رہی ہے میری ہر سانس میں لمحہ لمحہ

تری مخمور جوانی کے دل آویز خطوط

میرے آلام کی تسکین کا سامان نہیں

سا عت وصل میں گزرے ہوئے لمحوں ک مہک

صبح فردا کے مسائل کا کوئی حل تو نہیں

کیوں تیرے دست حنائی کے وہ رنگین نقوش

اتنے بے رنگ لگیں گے کبھی سوچا بھی نہ تھا

کتنی سنسان سیاہ راتوں کے لمبے ساۓ

میری شہ رگ کا لہو پیتے رہے جیتے رہے

زندگی , تلخی ایّام سے بوجھل ہو کر

انھیں موہوم سوالوں میں گزاری ہم نے

کتنے بے سود ہیں یہ سود و زیاں کے جھگڑے

زندگی جنکے تعاقب میں گزاری ہم نے

احمد عرفان





Jeddah Ki Adabi Mahfilen

احباب اردو کلب تسلیمات،
مرحوم مصطفیٰ قدوائی اور راشد صدیقی صاحبان ان حضرات میں سے ہیں جنھوں نے جدّہ میں ادبی محفلوں کا سلسلہ شروع کیا . شعراء حضرات جو کہ حج یا عمرے کی غرض سے تشریف لاتے انہیں کے اعزاز میں پر تکلّف محفلیں منعقد کی جاتیں. مقامی شعراء بھی اپنا کلام سناتے. مقامی شعراء میں نعیم حامد صاحب، جو کہ اب مدینہ منوورہ میں مقیم ہیں،سجاد بابر اور مرحوم ظفر مہندی صاحبان کا کلام بڑا معیارے ہوا کرتا تھا.انھیں محفلوں میں ہملوگوں نے اکثر و بیشتر طارق غازی صاحب کے والد محترم سے شرف ملاقات حاصل کی. دھیرے دھیرے یہ ذوق یہ شوق نو واردوں میں بھی پیدا ہونے لگا اور ان محفلوں کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی رہا. نئی نئی انجمنیں بن گییں.ایسی سنجیدہ اور پر تکلف ادبی نشستیں منعقد ہونے لگیں کہ جن کا تصور فی زمانہ دلّی ، حیدرآباد یا لکھنو میں بھی نہیں کیا جا سکتا جو کہ آج بھی اردو زبان کے مراکز سمجھے جاتے ہیں .طرحی نشستوں میں بہترین کلام سننے کو ملتا.اس طرح بتجریج ادبی محفلوں کا دائرہ بڑھتے بڑھتے تقریبن سعودی عربیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر تک پھیل گیا . ہند و پاک کے نامور شعرا کی آمد و رفت شروع ہو گیئ کچھ حضرات ایسے تھے جنکا قیام کافی عرصے رہتا، جیسے کہ محترم کلیم عاجز صاحب.جن کے اشعار آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں.
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
-------------
یہ پکار سارے چمن میں تھی' وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
میرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اسکی خبر ہوئی
------------
دن ایک ستم' ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
-----------
یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آو اس وقت کہ جس وقت پکارے جاو
کلیم عاجز صاحب کا پورا خاندان ١٩٤٦/٤٧ کے اندوہ ناک فسادات میں شہید کر دیا گیا. اپنے گاؤں سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے .جب لوٹے تو پورا کے پورا گاؤں مقتل بنا ہوا تھا.
یہ تمام واقعات کلیم عاجز صاحب نے اپنی کتاب "وہ جو شاعری کا سبب ہوا " میں تحریر کئے ہیں . ا س جانکاہ حادثے کی وجہ سے برسہا برس خاموش رہے. اور پھر جب گویا ہوئے تو میر کی زبان، میر کا لہجہ اور میر کا درد ایک اک الفاظ سے ٹپکنے لگا
احمد عرفان

جناب احمد عرفان صاحب آپ نے کلیم عاجز صاحب کا کلام لکھ کر ہم پر احسان کیا ہے ۔ کیا اسلوب بیان ہے کہ بے ساختہ زبان سے واہ واہ نکل جاتی ہے ۔۔ان کے خاندان کے ساتھ جو اندوہناک واقعہ ہوا وہ انتہائ افسوسناک ہے یقینا ان کے کلام میں اس
کا عکس نظر آتا ہے

قاضی زہیر صاحب تسلیمات ،
شکریہ ، امرجینسی کا دور دورہ ہے .دلّی کے لال قلعہ میں جشن آزادی کی تقریبات کے سلسلہ میں محفل مشاعرہ کی صدارت مسز اندرا گاندھی کر رہی ہیں .کلیم عاجز صاحب مائک پر تشریف لاتے ہیں اور مسز گاندھی کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی غزل کے یہ اشعار سنا رہے ہیں
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
منتظمین مشاعرہ اور تمام سرکاری اہل کاران کے پسینے چھوٹ رہے ہیں ،کانا پھوسی چل رہی ہے کہ کلیم عاجز صاحب کو کس طرح روکا جاے. مسز گاندھی کے چہرے کےتاثرات کو بغور سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے. بہرکیف جب رخصت ہونے لگے تو صاحب صدر نے ایک غزل کی فرمایش اور کی
منتظمین کے حواس درست ہوئے .دوسری غزل پہلی سے کہیں زیادہ تیر بحدف نکلی،
" یہ شہ سوار وقت ہیں اتنا نشہ میں چور
گر جایںگے اگر یہ اتارے نہ جایں گے
مسز گاندھی کلیم عاجز صاحب کے ایک اک شعر کو بغور سنتی رہیں اور ایک سنجیدہ مسکراہٹ چہرے پر آتی جاتی رہی . اسی کے کچھ عرصۂ بعد حکومت ہند کی جانب سے کلیم عاجز صاحب کو پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا گیا .
الحمدللہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ کلیم عاجزصاحب میرے غریب خانہ پر بھی قیام کرتے تھے .نہایت متقی پرہزگار، عبادت گزار اور سادہ لوح. یہی وہ لوگ ہیں جو فی زمانہ تبرکات میں سے ہیں .ہمارے اسلاف کی یادگار ہیں.کلیم عاجز صاحب کا مستقل قیام پٹنہ میں رہتا ہے. انکا ایک اور شعر یاد آگیا .
گنتی تو نہیں یاد مگر یاد ہے اتنا
سب زخم بہاروں کے زمانے لگے ہیں
خیر اندیش
احمد عرفان


Tuesday, November 10, 2009

aligarh Tera hai ya Mera

علیگڑھ اور علیگڑھ کے مسایل
ہر شاخ چمن ہے شولہ فشاں کیا خاک جہاں پر برسے گا
خود اپنے چمن تک آ نہ سکا غیروں کے چمن پر برسے گا ؟
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جس نے اس سرزمین پر تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کو ایک دوسرے سے لافانی رشتوں میں جوڈ دیا ہے . میں اپنے علیگڑھ کے انھیں سب بھائیوں سے مخاطب ہوں. ہم سب پر سر زمین .علیگڑھ کے کچھ حقوق بھی ہیں چاہے وہ اساتذہ کرام ہوں یا طلبا علیگڑھ اور سابق طلبا .علیگڑھ کے یہ قرض ہم سب کس طرح چکا رہے بڑے شرم کی بات ہے .کیا ہم سب یہ بھول گئے کہ ہم علیگڑھ کے چشم چراغ ہیں اس عظیم درسگاہ کے ہونہار فرزند ہیں.ہونہار وہی کہلاتا ہے جو مادر درسگاہ کے حقوق کو کبھی فراموش نہیں کرتا. کاش کہ موجودہ علیگڑھ کی نظر اپنے ماضی کے ان سرپھرے نوجوانوں کی طرف اٹھے جن کی سرگوشیاں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مختلف تحریکوں پر اثرانداز ہوئیں. سیاست ہو یا ثقافت ،ادب ہو یا تمدّن ان کی جولانیوں نے پورے برصغیر میں اپنے نقوش کی ایسی چھاپ سبت کی جس کو تاریخ کبھی نہ مٹا سکے گی. ہم نے اس شممع علم کے ان پروانوں کی محفلوں کونہیں دیکھا اور نہ ہی ان فرزانوں کی سرگوشیاں اپنے کانوں سے سنیں. افسوس کہ وہ زمانہ دیکھ نہ سکے پھر بھی یہاں کی دلکش فضاوں میں ان سریلے نغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہی. مجاز مرحوم کے ترانے کو سن کر اس عظیم دور کی یادیں تازہ کر لیتے ہیں. سرسید ڈے پر جسے سن کر محض تالیاں بجا کر اس دور رفتگاں میں گم ہو جاتے ہیں.مگر افسوس کہ وہ علیگڑھ اب کہاں جو خواب و خیال کی دنیا ہو کر صرف ہمارے ذہنوں میں بسا ہوا ہے
'زمانہ بدلا، تہذیبیں بدلیں، قدریں بدلیں ' کبھو ان سب کو علیگڑھ نے بدلا لیکن زمانے کی گرم و سرد ہواؤں سے علیگڑھ خود بدل گیا."ثبات ایک تغییر کو ہے زمانے میں "بدلنا ضرور چاہیے لیکن صحت مند قدروں کے ساتھ.لیکن یہاں تو آنوے کا آنوا ہی بگڑ گیا ' نہ وہ دیوانے ہی رہے اور نہ وہ فرزانے . اک ہجوم سرگشتہ ہے. مردم شماری ہو تو بے شمار،مردم شناسی ہو تو قحط لرجاال. کہاں وہ علیگڑھ جس کی ہر روایت دنیا سے نرالے تھی. جسکے اقامتی کردار میں کتنا سکون تھا، کتنا لحاظ تھا. علیگڑھ کے اس اقامتی کردار کی سب سے اہم روایت یہاں کے اساتذہ اور طلبا کے درمیان مضبوط رشتوں کی ہمواری اور شفقت و مرووت. افسوس صد افسوس کہ اب وہ ناپید ہو چکی ہے .
خطاوار کون ہے یہ اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے. اور اپنے گریبان میں جھانک کر پہلے کسے دیکھنا چاہئے ؟ در اصل ہم نے علیگڑھ یونیورستے کو یاد رکھا اور بانی درسگاہ کے تعلیمی مشن کو بھول گئے. علیگڑھ کا قیام محظ اس لئے نہ ہوا تھا کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی طرح یہاں سے بھی ڈگریاں تقسیم کی جاییں. ڈگری ںتقسیم ہونے کا کام تو جاری ہے لیکن کردارسازی نہ اساتذہ میں باقی ہے اور نہ ہی طلبا میں . لیکن اس کی ذمّہ داری کس پر آید ھوتی ہے ؟ اگر کردار سازی کرنے والوں کا خود کوئی کردار نہ رہے تو وہ کردار سازی کیا کریں گے اور کس کی کریں گے.
بڑے افسوس کی بات ہے کہ پچھلی چند دھائیوں میں مجموعے اعتبار سے علیگڑھ کے اساتذہ اور ایکزکیٹو کونسل کا رول بہت ہی مایوس کن رہا ہے.اپنا دامن جھاڑتے ہوئے ہر بے ضابطگی کی ذمّہ داری طلبا کے سر منڈھ دی جاتی ہے. سارے سبق طلبا کو سکھاے جاتے ہیں. اپنے گریبان میں نہ اساتذہ کرام اور نہ ہی کونسل کے ممبران جھانک کر دیکھتے ہیں. علیگڑھ میں کنبہ پروری کی بنیاد کس نے ڈالی؟ اساتذہ اور کونسل کے ممبران کی گروہ بندیوں نے طلبا کو گروہوں میں بانٹ کراپنے اپنے سیاسی اور زاتی مقاصد کے حصول کے لئے استمعال کرنا شروع کیا. کنبہ پروری کے پروردہ لوگوں نے اپنے بیٹوں،دامادوں،بھانجے بھتیجوں کو نا اہل ہوتے ہوئے بھی ریڈر اورپروفیسر بنا دیا. اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو علیگڑھ کی ہرفیکلٹی میں ایسے استادوں کی کمی نہیں. یہی کہانی نان ٹیچنگ اسٹاف کی بھی ہے. میں ہرگز یہ گستاخئ نہیں کر سکتا کہ کے یہ دعوه کروں کے سب کے سب ایسے ہیں، جو بے چارے ایسے نہیں وہ حاشیے پر چلے گئے ہیں.ان کی بات سننے والا کوئی نہیں.
آج علیگڑھ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ تو ہونا ہی تھا. یہ کوئی انہونیں بات نہیں. اور اگر یہے حالات رہے تو خدا نہ کرے اس سے بھی بد تر حالات کا سامنا کرنا پڑے گا. علیگڑھ کے خیر خواہوں کی کمی نہیں، یہ سلسلہ پچھلی ایک صدی سے چل رہا ہے اور انشا الله یوں ہی چلتا رہے گا.لیکن علیگڑھ فورم کی پوسٹنگ میں مستقل یک طرفہ بیانات آ رہے ہیں. زمینیں حقایق کو نہ سمجھتے ہوئے اس طرح کے بیانات حالات کو اور زیادہ خراب کر رہے ہیں. جس سے طلبا میں غیر اعتمادی پیدہ ہو رہی ہے. میں علیگڑھ کے تمام ساتھیوں سے گزارش کر رہا ہوں کہ ہم سب متحد ہو اس بات کی کوشش کریں کہ یونیورستنے جلد سے جلد کھلے تا کہ تعلیمی سلسلہ شروع ہو.
جنتر منتر دہلی میں دھرنے پر موجود طلبا سے ہم لوگوں نے ملاقات کی. ہمارے ساتھ جناب حسن کمال جو علیگڑھ المنائی امیرکہ کے بانیوں میں ہیں شریک تھے.ہم لوگوں نے اپنے نوعمر ساتھیوں کی تمام باتوں کو بغور سنا اور بات چیت کی.اس میں کوئی شک نہیں کے بہت سے مسایل ایسے ہیں جن پر فوری طور پر توجوہ دینے کی اشد ضرورت ہے. طلبا سے گفت و شنید کا سلسلہ بند کرنے سے مسلے ہرگز ھل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کچھ طلبا کو یونیورستے سے خارج کرنے سے کچھ حاصل ہوگا.ضرورت اس بات کی ہے کہ درسگاہ کے مسایل میں طلبا کو بھی برابر کا شریک کرنا چاہئے. سسٹم میں ٹرانس پیریسی ہو. یونیورسٹی کے وہ زممہ داران جن میں محترم وایس چانسلر صاھب بھی شامل ہیں جنہیں میں نے خود دہلی میں لابینگ کرتے ہوئے دیکھا ہے، اگر یہ کام علیگڑھ کے ایک سچے خیر خواہ ہونے کے ناطہ وہ طلبا علیگڑھ کے بیچ کریں تو مجھے پورا یقین ہے کے حالات ضرور بدلیں گے
وہ دشت کہاں وہ بزم کہاں وہ سوز کہاں وہ ساز کہاں
اس خلد بریں کے قصوں کو دہراؤ نہ اب تم یار یہاں
عرفان احمد
سابق آنریری سکرٹری
اولڈ بوایز ایسوسی ایشن.لکھنو

Saturday, November 7, 2009

غزل
پتنگے شمع سے دل کو لگا کے
قضاء کی گود میں سوے ہیں جا کے
نشیمن کا ہمارا تنکا تنکا
خزاں کے کام آیا کچھ ہوا کے
برا دل پر اثر پڑتا ہے اس کا
ہمیں دیکھا نہ کیجیۓ مسکرا کے
شب فرقت کے جاگے سو رہے ہیں
چراغ زندگی اپنا بجھا کے
بیاں کرنا ہے قصّہ درد دل کا
تمہیں اک روز اپنے گھر بلا کے
تمہارا نام کیوں بیمار لیتے
اگر ممنون ہو جاتے دوا کے
زمانے بھر کی تکلیفیں اٹھایئں
چمن میں آشیاں اپنا بنا کے
ستارہ غم کا ڈوبا یوں سحر کو
ہوئی کم روشنی منزل پہ جا کے
بتا تی ہے بشاشت رخ کی احمد
وہ خوش ہیں مجھ کو دیوانہ بنا کے
احمد عرفان

غزل

غزل
فرقت کا رنج تھا نہ غموں کا ملال تھا
تھا بھی جو نزع میں تو تمہارا خیال تھا
آتی تھی مثل آپ کے مجھ کو بھی دشمنی
دل دے چکا تھا میں مجھے اسکا خیال تھا
سو فطرتوں سے دل کو ہمارے جو لے گیا
وہ کس کا تھا فریب وہ کس کا جمال تھا
سمجھا ہوں بعد مرگ محبّت کا ارتباط
جو تھا میرا خیال وہ اسکا خیال تھا
دنیا سے کیا غرض اسے عقبه سے کیا غرض
تیرے فقیر شہر کا تجھ سے سوال تھا
بس بس قسم نہ کھاؤ مجھے اعتبار ہے
ہاں ہاں ضرور آپ کو کو میرا خیال تھا
امید اک بلا تھی میری جان کے لئے
جب تک کہ میں جیا مجھے مرنا محال تھا
آیا ہوں خالی ہاتھ میں اے کردگار حشر
دنیا میں لٹ گیا جو میرے پاس مال تھا
آواز باز گشت کا برسوں رکھا ہے ورد
بیگانہ جواب میرا ہر سوال تھا
ٹکرا کے سر جو رات تیرے در سے مر گیا
شاید کوئی غریب کوئی خستہ حال تھا
میں اور مجھ کو شکوہ تنہائی فراق
اچھا خیال تھا تمہیں اچھا ملال تھا
احمد وہ آ رہا ہے مجھے دیکھنے کوئی
نالہ میں آج کوئی نہ کوئی کمال تھا
احمد عرفان

غزل

غزل
اچھا ہوا نگاہ ستم دل میں رہ گئی
قاتل کی آبرو بھری محفل میں رہ گئی
پلٹی نہ حشر تک کسی دل میں وہ پھر کبھی
میری نگاہ شوق بھی محفل میں رہ گیی
شام شب فراق میں بے موت مر گئے
حسرت ہمارے دل کی جو تھی دل میں رہ گیی
مرنے کی آرزو میں بھی جینا پڑا مجھے
کھنچ کر جو تیغ قبضہ قاتل میں رہ گیی
دنیاۓ غم وسیع تھی احمد مگر وہ آج
اتنی سمٹ گیی کہ میرے دل میں رہ گیی
احمد عرفان